چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق ِآشنائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے
بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق ِآشنائی نہ دے
میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
میرے دیؤں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تیری دنیا کا حال ہے یا رب
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے معراج نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے
معراج فیض آبادی
میرے دیؤں کو مگر روشنی پرائی نہ دے
اگر یہی تیری دنیا کا حال ہے یا رب
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے
دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے معراج نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے
معراج فیض آبادی
No comments:
Post a Comment